کرونا وائرس سے اپنے آپ کو اور گھر کو محفوظ کیسے بنائیں
تلاش منگول کی اذ قلم حنیف احمد منگول کلائی مغلاں
( جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی تحقیق)
کرونا وائرس پر سب سے زیادہ تحقیق کرنے والے واشنگٹن کے معروف تحقیقی و تدریسی ادارے جانز ہاپکینز یونیورسٹی نے گھروں کو کرونا وائرس سے پاک رکھنے اور خود کو محفوظ بنانے کے لئے ایک گائیڈ لائن جاری کی ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے پرفیسر کے جاری کردہ الرٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کوئی جان دار چیز نہیں بلکہ ایک لحمیاتی سالمہ یا پروٹین مالیکول یعنی ڈی این اے ہے، جس پر چربی یا لیپڈ کی حفاظتی تہ چڑھی ہوئی ہے جو انسانی انکھوں، منھ یا ناک کی رطوبت یا میوکس کے خلیوں میں مل جانے سے اپنی تولیدی یا افزائش نسل کی خصوصیت حاصل کرکے جارحانہ تیزی سے بڑھنے والا خلیہ بن جاتا ہے۔
(1) کیا کورونا وائرس کو ختم کیا جاسکتا؟
کوئی زندہ چیز کی بجائے ایک لحمیاتی سالمہ ہونے کی وجہ سے اسے مارا نہیں جا سکتا، بلکہ ریزہ ریزہ ہو کر یہ ازخود ختم ہوتا ہے۔ تاہم، ریزہ ریزہ ہونے کے عرصے کا دار و مدار اس کے اطراف کے درجہ حرارت، نمی اور جہاں یہ موجود ہو اس کی نوعیت پر ہوتا ہے۔
(2) اسے ریزہ ریزہ کیسے کرتے ہیں؟
یہ وائرس ہوتا تو بہت نحیف(کمزور) ہے۔ تاہم، چربی کی بنی ہوئی اس کی باریک حفاظتی تہ پھاڑ دینے ہی سے اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے صابن یا ڈٹرجنٹ کا جھاگ سب سے زیادہ موزوں ہے جسے بیس یا اس سے زائد سیکنڈ تک اس پر رگڑتے رہنے سے چربی کی تہہ کٹ جاتی ہے اور لحمیاتی سالمہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔
(3) کیا گرم پانی کے استعمال سے یہ جلدی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے؟
گرمائش چربی کو جلدی پگھلاتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ پچیس ڈگری سے زائد درجہ حرارت (نیم گرم سے تھوڑا زیادہ) تک گرم کئے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ، کپڑے اور دیگر اشیا صابن یا ڈٹرجنٹ کے جھاگ سے دھوئیں۔ گرم پانی جھاگ بھی زیادہ بناتا ہے اس لیے اس کا استعمال زیادہ سود مند ہے۔
(4) کیا الکحل ملے پانی سے بھی اس کی حفاظتی جھلی توڑ سکتے ہیں؟
الکحل یا ایسا آمیزہ(مکسچر) جس میں 65 فیصد الکحل ہو وہ بھی اس کی حفاظتی تہ کو پگھلادیتا ہے بس شرط یہ ہے کہ اس پر اچھی طرح سے لگایا جائے۔
(5) کیا بلیچ ملے پانی سے بھی اسے ختم کر سکتے ہیں؟
ایک حصہ بلیچ اور پانچ حصے پانی ملا کر ایسی تمام جگہوں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل، ریموٹ، سیل فون، ماؤس، لیپ ٹاپ کی اوپری سطح، میز کی اوپری سطح یا ایسی تمام غیر جاندار جگہیں جہاں وائرس کی موجودگی کا امکان ہو اورجنھیں لوگ معمول کی زندگی میں چھوتے ہیں ان پر اچھی طرح اسپرے کرنے سے بھی اس کی حفاظتی جھلی ٹوٹ جاتی ہے۔
(6) کیا بہت زیادہ آکسیجن ملا پانی بھی اسے مارنے میں کارگر ہوتا ہے؟
بہت زیادہ آکسیجن ملے پانی سے بھی وائرس کی حفاظتی جھلی کو توڑا تو جا سکتا ہے مگر صابن، الکحل یا کلورین جیسی طاقت کے ساتھ نہیں، اس کے علاوہ ایسا پانی آپ کی جلد کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کا خالص ہونا بھی ضروری ہے۔
(7) جراثیم کش اور اینٹی بائیوٹک ادویات سے کیا اس کے ٹکڑے کر سکتے ہیں؟
جراثیم کش دوا اسے ختم کرنے میں کارگر نہیں ہوتی، کیونکہ وائرس، جراثیم کے برعکس جاندار نہیں ہوتا، جبکہ جراثیم مارنے کے لیے اینٹی بائیوٹک کام کرتی ہے۔
(8) یہ کسی بھی سطح پر کب تک باقی رہتا ہے؟
استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ کپڑوں کو لہرائیں یا جھٹکیں مت کیونکہ یہ کسی بھی مسام دار سطح (آپ کی جلد) کے علاوہ کپڑوں پر بے حس و حرکت تین گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے اس کے بعد کپڑوں اور آپ کی جلد سے ریزہ ریزہ ہو کر ختم ہوتا ہے۔ جبکہ تانبے پر چار گھنٹے، کارڈ بورڈ پر چوبیس گھنٹے، دھات پر بیالیس گھنٹے اور پلاسٹک پر بہتر گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے۔
(9) کیا یہ ہوا میں بھی موجود رہ سکتا ہے؟
جن چیزوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان چیزوں کو ہلانے جلانے پر یا پروں کی جھاڑن سے ان کی صفائی کرنے پر یہ فضا میں بھی تین گھنٹے تک رہ سکتا ہے اور اس دوران آپ کی ناک کے قریب آنے پر آپ میں داخل بھی ہوسکتا ہے۔
(10) کیسا ماحول اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے؟
یہ وائرس قدرتی یا ائیرکنڈیشنر کی ٹھنڈک میں بہت مستحکم ہوجاتا ہے اسی طرح اندھیرے اور نمی (موائسچر) میں بھی دیر تک رہتا ہے، اس لیے خشک، گرم اور روشن ماحول اس کے خاتمے میں مدد دیتا ہے۔
(11) کیا سخت دھوپ میں بھی یہ موجود رہتا ہے؟
بالائے بنفشی شعاعیں (الٹرا وائلٹ ریز۔ یو وی ریز یعنی سخت دھوپ) اس پر براہ راست کچھ دیر پڑنے سے بھی یہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے چہرے پر لگانے والے ماسک کو بھی اچھی طرح ڈٹرجنٹ سے دھو کر اسے دھوپ میں سکھانے کے بعد دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، بالائے بنفشی شعاعوں کا بہت دیر تک آپ کی جلد پر پڑنے سے اس پر جھرئیاں اور آپکو جلدی سرطان ہو سکتا ہے۔
(12) کیا انسانی جلد سے بھی یہ ہمارے بدن میں داخل ہو سکتا ہے؟
صحت مند جلد سے یہ وائرس انسانی جسم میں داخل نہیں ہو سکتا۔
(13) کیا سرکہ ملا پانی بھی اس کے ٹکڑے کر سکتا ہے؟
سرکہ اسے ختم کرنے میں کارآمد نہیں کیونکہ وہ اس کی چربی کی بنی حفاظتی جھلی کو توڑ نہیں سکتا۔
(14) کیا گھر اچھی طرح بند رکھنے سے اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
جو جگہ ہوا دار نہ ہو اس میں یہ زیادہ پنپتا ہے جبکہ کھلی جگہ پر اس کے زیادہ دیر تک رہنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
(15) کیا ہر کام کرنے سے پہلے بھی اچھی طرح ہاتھ دھونے چاہئیں؟
یہ بالکل درست کہا گیا ہے کہ منھ، ناک، آنکھ، کھانے، تالوں، چابیوں، نوٹوں، سکوں، دروازوں کے ہینڈلوں، بجلی کے بٹنوں، ریموٹ کنٹرول، موبائل فون، گھڑی، کمپیوٹر، ڈیسک، ٹی وی وغیرہ کو چھونے سے پہلے اور بعد میں جبکہ واش روم سے آنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ دھویں.
(16) ہاتھ خشک کرنے کے آلے (ہینڈ ڈرائر) میں بھی کیا رہ سکتا ہے؟
ہاتھ خشک کرنے کے آلے کو بھی اچھی طرح دھو کر نمی سے پاک رکھیں، کیونکہ یہ سالمہ(مالیکیول) اس کی درزوں میں بھی بیٹھ سکتا ہے.
(18) کیا یہ ہمارے ناخنوں میں بھی رہ پاتا ہے؟
جی بالکل، اپنے ناخن باقاعدگی سے کاٹیں تاکہ ناخنوں کے میل میں نہ بیٹھ پائے۔
کرونا وائرس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے -ہر کوئی اپنی دماغی اسطاعت کے مطابق اپنے قلم کو چلا کر قائرین کا لہو گرما رہا ہے۔ کچھ ایسے بھی دوست احباب ہیں جو اس کومحض مفروضے اور خیالات کا نام دے رہے ہیں اور اک نئی طرح کی دلیل پیش کر کے اپنے اپ کو عقل قل مجھتے ہوئے دوسروں کوحقیر ثابت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے۔ میں اپنے پہلے کالم میں کرونا وائرس کی اصلیت ،اس کے پس پردہ حقاق کاپردہ چاک کر چکا ہوں اور اس کے آفٹرشاکس کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔اور یہ تمام چیزیں میں نے ٹھوس ثبتوں کے ساتھ بیان کر رہا ہوں۔اگر اس کو کوئی محض مفروضہ مجھتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اسکو آئے روز اردگرد سے نت نئی خبریں سنائی اور دیکھائی نہیں دیتی تو پھر اسکا اللہ حافظ!!!
میں واضح طور پر بتا چکا ہوں۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسکے ہمنواں کا کردار کرونا وائرس کے حوالے سے واضح ہوتا جائے گااور جرم کی چھوٹی چھوٹی نشانیاں قاتل کا پتہ بتا رہی ہوں گی۔
مشہور انگلش میگزین The Economist
کا سرے ورک دیکھ لو جس میں ایک ہاتھ میں ایک رسی اور دوسرے سرے سے ایک ماسک پہنا ہوا بندہ ، جس کے گلے میں یہ رسی پڑی ہوئی ہے چل رہا ہے ،اس بات کا واضح پیغام دے رہا ہے کہ ہم نے دنیا کو کنٹرول کر لیا ہے۔اور ایک دوجالی فتنے کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا ، جس میں جنت اور دوزخ کاجہنسا دے کر اپنی حکمرانی ثابت کرنا۔ اور اپنی پیروی کروانے پر مجبور کر دینا۔اس دنیا پر نئے ڈان کی آمد اور حکمرانی کا نیا کھیل اور کرونا کا پہلا حملہ ہو چکا !!!
جب کرونا وائرس لیب میں تیار کیا گیا تو اسکی ویکسین بھی تیار کی گی تھی-اسکو کب بطور جرثیمی ہتھیار استعمال کیا جائے گا یہ فیصلہ بھی ساتھ میں کیا گیا۔اس کا ایک اور ثبوت 2011 میں بننے والی ڈائریکٹر Steven Soderbergh کی فلم *Contagion * ہے جو اس جیسی بیشمار سپرہٹ فلمیں بنا کرکافی ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ ان کو خاص طور پر کرونا وائرس کا پری پیلین ڈرامہ تیار کرنے کے لئے چنا گیا- اور قریب
$60million کی لاگت سے بننے والی یہ پری پیلین کرونا وائرس فلم 130million امریکی ڈالر بنانے میں کامیاب ہوئی ۔
جس میں آج کے ان حالات کو تقریباً نو سال پہلے بڑی خوبصورتی اور چلاکی سے فلمایا گیا ہے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ فلم ابھی آج بنی ہے ۔کرونا وائرس کس طرح پھیلتا ہے اور کس طرح لوگ مرتے ہیں -کس طرح دنیا لاک ڈان ہو جاتی ہے ،پھر ڈبلیو ایچ او کا کردار انسان پر اک سکتا سا طاری کر دیتا ہے کہ رائٹر اور فلم کا ڈائریکٹر کمال کا علم نجوم رکھتا ہے کہ اس کو نو سال پہلے معلوم ہو جاتا ہے کہ 2020 میں کرونا وائرس کا سیٹ کیسا ہو گا اور کرونا وائرس کی وجہ سے یوں دنیا لاک ڈان ہو کر رہ جائے گی اور سات سے آٹھ میلین کے قریب ہلاکیتں ہوں گی ۔ خوراک کی کمی ،سینیٹئزر کا استعمال ،ماسک کی کمی ،فوڈ مارکیٹوں کا خالی ہو جانا اور لوگوں کی دوڑیں اپنے آپ کوکرونا وائرس سے بچانا ،اک حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے-یعنی دنیا کے لاک ڈاؤن کی کہانی حو بحو کیسے فلمائی گی؟چین کی خوفیا ایجنسی دن رات اس کام لگی ہے کہ یہ کرونا کا وائرس کا جن ان کے گھر کیسے پہنچا۔اور اس کا پتا لگانے میں وہ کامیاب ہو چکی۔بہت جلد اسکی رپورٹ منظر عام ہو گی۔اور کیس عالمی عدالت لے جانے کا اصولی فیصلہ بھی چین کر چکا۔امریکی صدر کا کرونا وائرس کو چینی وائرس کہنا ۔۔۔اور بار بار کہنا!!! اک نئی سازش کی خبر دیتا ہے۔
امریکہ میں اچانک کرونا وائرس کے کیسز کا ساری دنیا سے زیادہ ہونا۔دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔۔کی کہاوت سچ ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔اس کالم کے لکھنے کے دوران مجھے بہت سی چیزوں سے گزرنا پڑا-
جب تک میرا کالم پرنٹ اور ڈیجٹل میڈیا کی زینت بنتا بے شمار تحررییں ،وڈیوز میری لکھی ہوئی باتوں کی تعیدکر رہی ہونگی اور کرونا وائرس کی یہ دوجالی “سازش “بے نقاب ہوتی ہوئی اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ دھندلی تصویر 4K کے شاندار کلرز میں واضح دیکھائی دے گی ۔یہودیوں کی مذہبی کتاب “تلمود” کے حوالے بھی ہونگےاور باتیں بھی ہونگی۔ میں کچھ مشکل عبرانی ذبان کے الفاظ لکھ کر آپ کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ وقت کی رفتار اور بدلتے حالات خود فیصلہ کریں گے۔ ڈر اور خوف کا یہ پلین کردہ کھیل زیادہ دیر چلنے والا نہیں ۔حیرت کی بات فلم میں ہانگ کانگ سے شروع ہونے والا کرونا وائرس اورحقیقت میں میں بھی چین کے ایک صوبے میں پھیلانا شروع ہوا۔یہ کوئی کو انسیڈنٹ نہیں ،اک سوچی سمجھی سازش!!!
چین کی معشیت کو تباہ کرنے کے لئے کیا جانے والا کرونا وائرس کا حملہ ،چین کو اک نئی طاقت اور قوت دے گیا۔چین نہ صرف اس حملے سے بچ نکلا، بلکہ اپنی خدمات کو دوسرے ممالک کے لئے بھی پیش کیا۔انسانی دوست ہونے کی اعلی مثال قائم کی۔چین نے کرونا وئراس کے اس حملے کو بڑی ہمت اور حوصلے سے پس پہ کیا ہے۔ساری دنیا کو ماسک ،ونٹیلیٹر ،ادویات اور دوسرا حفاظتی سامان پہنچا کر اک انسانیت دوست ملک ہونے کا بہترین ثبوت دیا ہے۔نیا ڈان اپنا پیغام دے چکا!!!
ہیکل سیلمانی کی تعمیر,کرنسی کاایک نیا نظام اور ایک نئے ڈان کا دنیا پرحکمرانی کا کھیل گرما گرم ہے۔اس کو مقصد دنیا کی معشیتوں کو برباد کر کے اپنا سکہ چلانا ہے۔ ڈر اور خوف کو پیدا کر کے اپنی حاکمیت تسلیم کروانا ہے۔کرونا وائرس جراثیمی ہتھیار کا استعمال اسکی پہلی گولی ہے۔ دنیا کے باشعور اور اللہ کی وحدانیت پر یقین کرنے والے اللہ کے پیارے سمجھ چکے۔۔۔کہ اصل کہانی کیا اور اس کہانی میں چھپائے گے فریب کے پتے۔۔۔کیا ہیں ؟
کرونا وائرس سے ڈرنے کے بجائے ہوش اور عقل سے کام لیں۔رب تعالی کی بار گاہ میں حاضری دیں۔جو چالوں کو پلٹا دیتا ہے ۔اس ہی سے مدد مانگیں۔۔۔جو میرااورآپ کا رب ہے ۔بادشاہی صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہے۔ہوتا وہی ہے جو میرا اور آپ کا رب چاہتا ہے۔گرد و نوا کا خیال رکھیں۔خوف کی اس فضا سے اپنے آپ کو نکالیں۔ اللہ کے دئیے ہوئے رزق میں سے غریب کی جولی میں بھی کچھ ڈالیں ۔کیونکہ پیکچر ابھی باقی ہے !!!