09-04-2020

MOON CREATIONS

کرکٹ اور سیاست میں فرق ہے

شطرنج کے  کھلاڑی اپنے مہروں کی چال تبدیل کر تے رہتے ہیں۔  لیکن کیا ہی خوب منظر ہو تا ہے جب بورڈ کے دونوں اطراف لگے سارے مہرے ہی اپنے ہوں۔  اب سمجھداری سے کام لینا ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت کون سے وزیر کو قربانی کا بکرا بنا دے اور کس کی صرف جگہ تبدیل کر  ایک اچھی چال چلی جا سکتی ہے۔
اب کھیل کرکٹ سے نکل کر شطرنج میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں پر چال چلنی بھی لازمی ہوتی ہے۔ اور اپنی کابینہ بھی بچانی لازمی ہوتی ہے ورنہ گیم ختم ہو جاتی ہے اور بازی کوہی اور لے جاتا ہے سٹاک مارکیٹ کےاس بازار میں سب کو فائدہ ہونے لگے تو اس میں بڑے بڑے بروکرز کی چھٹی ہو جائے۔  بازار حصص میں ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان اور دوسرے کا فائدہ پہلے والے کا نقصان ہوتا ہے۔
لیکن یہ صرف بڑے سوداگر ہی جانتے ہیں کہ کس وقت اربوں میں منافع کمانا ہے اور کس وقت کروڑوں میں انوسیٹمنٹ کرنی ہے۔  چھوٹا تاجر تو بس دیہاڑی اچھی لگ جائے اسی پے خوشی سے سماء نہیں پاتا۔ لیکن منطر اس وقت اور بھی دلکش ہو جاتا ہے جب چال چلنے والوں کی ہر چال پر میڈیا والے عقاب کی سی نظر ے جماہے اور کوے کی طرح کاے کاے کرتے ہوں۔
اور گلستان میں چڑیوں کی جگہ الو بیٹھے ہوں جو گلستان کو تباہ کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہ گنواتے ہوں۔ ایک طرف تو ابھی ملکی معیشت کے پہیے کو چلانے کے لیے آہی ایم ایف کے سامنے کٹورا لیے کھڑے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں انوسٹمنٹ کرنے والوں نے سود سمیت اپنے اربوں وصول بھی کرنا شروع کر دہے ہیں۔
ملک میں بڑتی مہنگی اور بے روزگاری کو لے کر اپوزیشن کے پاس ٹاہیں ٹاہیں کرنے کے لیے کیا کم مسائل تھے کہ یہ مصیبت بھی گلے پڑ گی ہے۔  خیر کوئی بات نہیں اپوزیشن سے تو کسی طرح لے دے کر ہی لے گئے۔ لیکن اپنی چلتی اے ٹی ایم مشین کا کارڈ کسی اور کو دینا بھی کوئی اتنی عقل مندی کا کام نہیں۔  جب ملک میں کورونا کورونا کا شور ہے۔  اور حکومت نے جو کچھ جمع کیا تھا وہ بھی کورونا لے اڑا اور ڈکار تک نہیں لیا ایسے میں چینی اور آٹا بحران کی رپورٹ کوہی قیامت سے کم نہیں ہے
اس رپورٹ پے حکومت میں مصروف عمل کہی پریشان تو کچھ خوشی سے بگل بجا رے ہے۔  لیکن موقع پرست تو ہر دور اور ہر حکومت میں موجود ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سمجھ دار صیح وقت پر اننگز کھیلتے ہیں اور بے قوف وقت سے پہلے ہی آوٹ ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔
 وزیر اعظم صاحب کو اپنے لاڈلے وزیر اعلیٰ پر تو فخر تھا۔  گونگا نہ بولے اور پیاسا نہ پانی مانگے۔ لیکن اس بار شاہد خان صاحب کو یہ احساس ہو جائے کہ منے کو بولنا بھی ہو گا اور ضرورت کے وقت کڑوا گھونٹ پینا بھی ہو گا۔ خان صاحب کو ن لیگ کے دور کی ڈان  لیکس رپورٹ تو باخوبی یاد ہی ہو گی۔ بادشاہ سلامت نے اپنی شہزادی کو بچانے کے لیے دو وزیرہ کی قربانی بھی دی تھی۔  لیکن نہ شہزادی رہی اور تخت او تاج بھی چھین گیا تھا۔ آج تک سزا کاٹ رے ہے۔
لیکن خان صاحب کو یہاں چلیج کچھ اس کے برعکس ہے۔  یہاں سزا دینے پے مشکلات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور نہ دینے پے میڈیا اور اپوزیشن کم ازکم یہ موقع تو ضاہع نہیں کر ے گے اب خان صاحب کو یہ سمجھ تو آہا جانی چاہیے۔ کہ ن لیگ والے کیوں اپنے دور میں پل اور سڑکیں زیادہ بناتے ہیں۔  ورنہ انویسٹمنٹ کرنے والے سڑکوں اور پلوں سے نہیں بلکہ آٹا اور چینی سے بھی اپنے پیسے وصول کر لیتے ہیں۔
بہرحال سیاست بھی چلتی گاڑی کا نام ہے۔ جب تک چلتی رہتی ہے لوگ سوار ہوتے رہتے ہے۔  اور اپنا اور اپنے ساتھ والے کا کرایہ بھی منہ رکھنے کے لے دیتے رہتے ہیں۔  اور اقتدار میخانے کی وہ حسینہ اگر حسین نہ رہے تو میخانہ اگر سونےکا بنا ہو اور جام چاندی کے برتنوں میں پیش کیا جاے۔ ساقی پھر بھی میخانہ بدل دیتا ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقتدار کی تازہ ہوا بھی اسی سمت چلتی رہتی ہیں۔ جہاں ان کی قدر کی جاتی ہے۔ اور اقتدار کے نشمن بادصبا کو زندگی کی روح سمجھ کر اس سے سراب ہوتے ہیں۔ خان صاحب کو یہ انداز تو باخوبی ہو گیا ہے کہ گورنمنٹ چلانا کرکٹ سے کافی۔ مختلف ہے۔ لیکن سمجھ دار ساست دان ہمیشہ اپنی کرسی کے چاروں پاۂے مضبوط رکھتے ہیں۔

Categories: April 2020