ضلعی وتحصیل انتظامیہ دھیرکوٹ ارباب اقتدار سے گزارشات ۔۔
کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر مین لوگ معاشی معاشرتی ذہنی طور پر بہت متاثر ہوئے ہین قبل ازیں پردیسی جب اپنے گھر کو لوٹا کرتے تھے تو پورے خاندان مین بڑی خوشی اور چہل پہل ہوا کرتی تھی لیکن نہ جانے اس وباء نے انسانوں کو کیوں اس قدر دور کردیا کہ سالہا سال کے بعد پردیس سے واپس لوٹ آنے والا والد اپنے بچوں سے بےجھجک گلے نہین مل سکتا؛ ماں اپنے لعل کو زیادہ دیر قریب بٹھا کر اس کے دکھڑ ے سننے کو تیار نہین ہے بہن بھائیوں کے درمیان ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اب تک ویسے ہی فاصلے برقرار ہین کہین انتظامیہ اور حکومتی قوانین آڑے ہین بہرحال آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قابل تحسین اور بروقت اقدامات کی وجہ سے یہاں کے شہری باقی دنیا کی بنسبت بہت کم متاثر ہوئے ہین جس پر ہر شہری اپنی حکومت کا مشکور اور خدا تعالی کے سامنے سربسجود ہے ۔
لیکن دھیرکوٹ اور باغ کی انتظامیہ کے چند اقدامات پر بعض خواص اور عوام الناس کو شدید تحفظات ہین ۔
دھیرکوٹ اے سی صاحب ابھی چند ہی روز قبل تشریف لائے ہین شاید اس وجہ سے وہ اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کیلیے ایسے سطحی اقدامات کر رہے ہین جن سے لوگ بجائے کروناوائرس احتیاطی تدابیر کو اپنے لیے حفظ جان سمجھنے کے اسے وبال جان سمجھنے لگے ہین معمولی معمولی باتوں پر لوگوں سے بداخلاقی ؛ ماسک اور گلاوز کے عدم استعمال پر بے جا بے عزتی کرنا ؛ دو دو افراد کے بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ایک ساتھ مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے چلنے پر بھی سخت ترین پابندی عائد کررکھی ہے بلکہ موصوف نے آتے ہی چند روز مین دفعہ 144 نافذ کرکے یہ باور کروایا کہ ہاں قانون کی ڈوری میرے ہاتھ مین ہے مین جو چاہوں کرسکتا ہوں ۔
جمعة المبارک کے روز راولپنڈی اسلام آباد اور پاکستان کے دوسرے کئی شہروں مین نماز جمعہ کی ادائیگی پر اس قدر سختی نہین تھی جس قدر زبردست کرفیو کاسماں تحصیل دھیرکوٹ مین تھا موصوف اے سی صاحب کا کہنا تھا کہ جمعہ کے اجتماع مین تین افراد امام مسجد موذن خادم کے علاوہ کوئی شریک نہین ہوسکتا دوسری جانب ایسی فوٹیج موجود ہین جس مین اے سی صاحب خود جب بازار مین داخل ہوتے ہین تو پندرہ سے بیس افراد کا جم گھٹا باندھ کر اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کے لیے بڑی شان وشوکت کے ساتھ داخل ہوتے ہین ۔
ارباب اختیار سے میری گزارش ہے کہ اے سی سے جواب طلبی کی جائے؟
مسجد مین تین سے زائد افراد کے نماز ادا کرنے سے کرونا پھیل جاتا ہے تو کیا آپ کے ساتھ درجنون لوگوں کے چلنے پھرنے سے کرونا کچھ نہین کرتا ؟؟
یہاں تک ہی نہین بلکہ اے سی صاحب کے ساتھ چلنے والی ٹیم بغیر گلاوز اور ماسک کے پورے بازار کادورہ کرتے ہوئے گزر جاتی ہے حرام ہے کرونا سے کوئی خطرہ ہو یا اس سے کسی کے متاثر ہونے کااندیشہ ہو کرونا وائرس صرف مساجد مین لوگوں کے اجتماع سے پھیلتا ہے اور ماسک گلوز کی ضرورت معمولی دیہاڑی دار مزدور غریب بابا جی کو ہے اے سی صاحب کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگی ہے جس کی بدولت نہ ان کی بیماری کے جراثیم منتقل ہوتے ہین نہ انہین کسی کے جراثیم سے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے ۔
جناب وزیر اعظم صاحب “
اگر آپ کی ریاست کی سب سے حساس اور آزاد کشمیر کی ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تحصیل انتظامیہ کی یہ کیفیت ہے تو پھر باقی تحاصیل اور اضلاع کا کیا ہوگا ؟
یا پھر آپ کے وضع کردہ قوانین صرف عوام الناس کیلیے ہین قانون نافذ کرنےوالے ادارے اس سے مستثنی ہین ؟
راقم الحروف مسجد کا امام وخطیب ہے مین نے احتیاطی تدابیر پر سب سے پہلے خود عمل شروع کیا اور اپنے درجنوں نمازی حضرات کو قران وسنت کی روشنی مین ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے جواز کی دلیلین مہیا کین اس لیے کہ اگر علماء کرام ؛ اسکول کالجز کے اساتذہ ؛ ڈاکٹرز ؛ انتظامی اداروں کے ملازمین اس حوالے سے رول ماڈل ہین اگر ہم ہی ریاست کی رٹ کو سربازار چیلنج کرین گے پھر کون اس پہ عملدرآمد کرے گا ؟
دوسری جانب علماء کرام ؛مساجد کے خطباء کے حوالے سے اے سی دھیرکوٹ اور ڈی سی باغ کا گٹھ جوڑ اس قدر پختہ اور ناقابل تسخیر ہے کہ اس کی مثال مقبوضہ کشمیر ؛ شام ؛ فلسطین مین بھی نہین ملتی ضلع باغ کی حدود مین آج بھی کئی مقامات پر کھیل کے میدان سجے رہتے ین دن بھر نوجوان کھیل کود مین مشغول ہوتے ہین کئی ایک جگہ سو سے اوپر نوجوان بیک وقت جمع رہتا ہے لیکن کہین انتظامیہ ان کے خلاف کاروائی کرتی نہین دکھائی دے رہی اور مساجد مین جمعہ کے روز بزور ریاستی طاقت مساجد کوعین خطبہ جمعہ تک بند کرنے کی ہدایات جاری کی جاتی ہین ؛ پولیس ملازمین سے دھمکیاں دلوائی جاتی ہین تین سے پانچ افراد کے مسجد مین داخل ہونے پر امام وخطیب مسجد کے خلاف مقدمات کیے جاتے ہین نماز جنازہ مین لوگوں کی زیادہ مین شرکت پر علماء کرام کے خلاف کیس دائر کیے جاچکے ہین فوری ایکشن کروا کر علماء کرام۔کے گھروں مین چھاپے مروا کر معاشرے کے مھذب طبقے کو ذلیل اور رسوا کیا جارہا ہے ۔
ارباب اقتدار سے میری گزارش ہے کہ ریاست مین ایک ہی قانون ہے جو غریب وامیر ؛حاکم۔ ومحکوم ؛رعایاوحکمران کے درمیان بلاامتیاز حرکت مین آتا ہے لیکن ضلع باغ کی انتظامیہ نے اس وقت جو رویہ اپنا رکھاہے وہ بلکل اس کے منافی ہے اور اس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ یہاں کی انتظامیہ مزہبی طبقات سے شدید عناد اور علماء سے پرخار ہے جسکی وجہ سے یہ قانون صرف علماء کرام کے خلاف ہی حرکت مین آرہا ہے مین پوچھنا چاہوں گا انتظامی اداروں سے کیا ممبر پہ بیٹھا خطیب دروازے سے اندر آنے والے شخص کو خطبہ روک کر یہ کہتے ہوئے واپس کرے کہ کروناوائرس کی وجہ سے آپ اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہونے کیلیے اپنے مالک کے گھر نہ آئین ؟
یہ خطیب مسجد کے کا کام ہے یا سرکاری مراعات اور تنخوائین لینے والون کا کام ہے ؟
کیسی عجیب منطق اور فلسفہ ہے کہ انتظامی ادروں کی ذمہ داری ہے وہ مسجد کے باہر اپنے فرائض کی انجام دیہی کیلیے کھڑے ہوں آنے والے نمازیوں کو احتیاطی تدابیر اور حکومتی احکامات سے آگاہ کرین پھر اگر کوئی عالم دین؛ خطیب ؛ موذن ؛ امام رکاوٹ بنتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی عمل مین لائی جائے دوسری جانب دیگر عوامی مقامات اجتماع گاہون کھیل کے میدانون پہ بھی پابندی کو صرف نوٹیفکیشن تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکے اس پر بھی عملدرآمد کروایا جائے ورنہ اس کے نتائج بہت بھیانک ہونگے ۔
اس سے یہ تاثر یہ مزید تقویت پکڑے گا یہ لاک ڈاون اور کرفیو بطور خاص مزہبی طبقے کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلیے قائم کیا گیا ہے ۔
جنازہ گاہ کیلیے بھی گھروالوں سے مشورہ کرکے قریبی عزیز واقارب کے علاوہ کسی کو نہ شریک ہونے دیا جائے پھر بھی اگر لوگوں۔کا جم غفیر کہین جمع ہو جاتا ہے تو یہ علماء کی نہین پولیس کی نااہلی ہے ۔
ایک طرف ضلع باغ کی انتظامیہ اس وقت مساجد کے حوالے سے ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ناکام دکھائی دے رہی ہے دوسری طرف ڈی سی باغ کی زیرصدارت پیر کے روز یہ فیصلہ کیا جاتا ہے امدادی ٹیمین اجازت نامے کے بغیر اپنے تئین کسی غریب؛ نادار ؛مستحق فرد کی مدد نہین کرسکتین اس فیصلے سے بھی فلاحی تنظیموں اور ادروں مین شدید اضطراب ہے یہ معاملہ بھی شرعا واخلاقا بلکل نامناسب ہے جس پر انتظامیہ کو نظر ثانی کی ضرورت ہے ضلع باغ کی حدود بہت دور تک پھیلی ہین۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر آدمی ضلعی یاتحصیل سطح پہ جاکر اجازت نامہ حاصل کرے اور پھر وہ مستحقین مین راشن پانی تقسیم کرے ڈی سی صاحب اس حوالے سے علماء کرام اور فلاحی تنظیمون کے نمائندگان اعلی سطحی اجلاس بلائین جس مین اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاسکین اور تمام تر تحفظات کو دور کیا جائے ورنہ انتظامی ادروں علماء کرام فلاحی تنظیموں مین عدم اعتماد کی فضا مزید بڑھ جائے گی ۔