Day: April 9, 2020

09-04-2020

MOON CREATIONS
از قلم حنیف احمد منگول کلائی مغلاں..
بلہ عنوان  صرف کھری کھری
کچھ حقائق سے پردا  ہٹایا!!!!!!
ابھی آپ ان شودھے بازوں ، چوروں اور لٹیروں سے سنیں گے “پہلی بار ایسا ہوا ” پہلی بار کسی وزیراعظم نے اپنے لوگوں کی رپورٹ شائع کی” ان سیاسی قلاشوں کی یہ ہر وقت کی “پہلی بار پہلی بار” کی گردان چلتی رہے گی
تو سنیے !
یہ ملک میں پہلی بار ہوا جب متعلقہ ادارہ کابینہ کو رپورٹ دے رہا تھا کہ چینی ایکسپورٹ نہ کی جائے ملک میں قلّت ہو جائے گی تو “پہلی دفعہ” ملک میں ایسا ہوا کہ متعلقہ ادارے کو بائی پاس کرکے کابینہ نے ایکسپورٹ کرنے کا فیصلہ کردیا ، یاد رہے کہ یہ کابینہ وزیراعظم کی ناک کے نیچے فیصلہ کرتی ہے “پہلی دفعہ” ایسا ہوا کہ وزیراعظم کو پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔ سلام تیرے پہلی دفعہ کو
یہ “پہلی دفعہ” ایسا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے جس اعظم سواتی کو وزارت سے ہٹایا اس کو پھر وزیر لگا دیا گیا اب یہ مزید غریبوں کے خلاف پرچے کٹوائے گا کیونکہ اس کو اپنے فارم ہاؤس کے پاس غریب کی جھونپڑی چبھتی ہے ۔
یہ بھی “پہلی دفعہ” ہوا کہ جس خسرو بختیار کا نام رپورٹ میں آیا اس کی وزارت تبدیل کردی اور وہ کہتا ہے کہ وزارت میری مرضی سے تبدیل ہوئی ہے ، یہ وزارت کی تبدیلی بھی وزیراعظم کی مرضی سے ہوئی ہے ۔
یہ تو واقعی “پہلی دفعہ ” ہوا ہے کہ جہانگیر ترین سے اس محکمہ کی سربراہی لے لی گئی ہے جو اس کو کبھی ملی ہی نہیں تھی ، یہ جھوٹ اور فریب بھی وزیراعظم کی ناک کے  نیچے کھیلا گیا ، جہانگیر ترین نے وہ نوٹیفیکیشن مانگا ہے جس میں اس کو تعینات کیا گیا تھا ۔
یہ تو لکھ لو کہ “پہلی بار” ہی ہوا ہے “آج سے ایک سال پہلے یہ ڈی چوکیے ڈانسرز جس بابر اعوان کو برطرف کرنے پر اسی پہلی بار پہلی بار پر ٹھمکے لگا رہے تھے ان کے منہ کو دونوں ٹانگوں میں پھنسا کر بتایا جائے وہ پھر سے وزیر لگ گیا ہے ، یہ بھی وزیراعظم کی پھٹی قمیض کے نیچے ہوا ہے ۔
یہ تو ہوا ہی “پہلی بار” ہے کہ جس رزّاق داؤد کی کمپنی کے پاس ان دیکھے ڈیم کی تعمیر کا آنکھوں دیکھا ٹھیکہ ہے اس کو کہا گیا کہ اس سے بھی عہدہ لے لیا گیا ہے سچ یہ ہے کہ اس سے بھی صرف اضافی ذمہ داریاں واپس لی گئی ہیں ، یہ بھی وزیراعظم کے بانوے والے ورلڈ کپ کے نیچے ہوا ہے ۔
یہ بھی “پہلی دفعہ” ہی ہوا ہے کہ اپنے والوں کے جرائم کے لیے فرانزک رپورٹ تیار ہوگی باقی اپوزیشن سے صرف اپنی بائیس سال کی جدوجہد کا بدلہ لیا جاتا ہے ۔
یہ بھی “پہلی دفعہ” ہوا ہے کہ جس بزدار نے سںبسڈی دی اس سے سوال نہیں ہو رہا کیونکہ وہ تعویذ سے تعینات کیا وزیرِ اعلیٰ ہے ، ساری دنیا ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف ۔
آپ سب کو یاد ہو یا نہ ہو مجھے یاد ہے یوتھیوں کو تو کچھ بھی یاد نہیں رہتا ڈی چوکیے یا تو ناچتے ہیں یا ٹائیگر ہیں تیڑھی دم والے
الطاف حسین بھی یہی کرتے تھے ، مرکز بلا کر رات دو بجے اپنے ساتھیوں کا احتساب کرتے تھے ، چائینہ کٹنگ ، ممبرز کہ شکایات ، بھتہ ، سرکاری تعلق پر ذاتی کاروبار کی شکایت سن کر کہتے تھے ، مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا یہاں تنظیم کو برباد کیا جا رہا ہے اور بالکل معصوم بن جاتے تھے ۔
مگر کچھ عرصہ بعد وہ تمام لوگ واپس مختلف وزارتوں اور عہدے پر واپس آ جاتے تھے ۔
مجھے تو پی ٹی ائی پر غصہ آنے لگا ہے ، ان کی وجہ سے ملک صرف اور صرف برباد ہو رہا ہے ، پہلے والے چور تھے یہ چور بھی ہیں ، نااہل بھی ہیں ، یہ جھوٹے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ متکبّر بھی ہیں ۔

Categories: April 2020

09-04-2020

MOON CREATIONS

کرکٹ اور سیاست میں فرق ہے

شطرنج کے  کھلاڑی اپنے مہروں کی چال تبدیل کر تے رہتے ہیں۔  لیکن کیا ہی خوب منظر ہو تا ہے جب بورڈ کے دونوں اطراف لگے سارے مہرے ہی اپنے ہوں۔  اب سمجھداری سے کام لینا ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت کون سے وزیر کو قربانی کا بکرا بنا دے اور کس کی صرف جگہ تبدیل کر  ایک اچھی چال چلی جا سکتی ہے۔
اب کھیل کرکٹ سے نکل کر شطرنج میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں پر چال چلنی بھی لازمی ہوتی ہے۔ اور اپنی کابینہ بھی بچانی لازمی ہوتی ہے ورنہ گیم ختم ہو جاتی ہے اور بازی کوہی اور لے جاتا ہے سٹاک مارکیٹ کےاس بازار میں سب کو فائدہ ہونے لگے تو اس میں بڑے بڑے بروکرز کی چھٹی ہو جائے۔  بازار حصص میں ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان اور دوسرے کا فائدہ پہلے والے کا نقصان ہوتا ہے۔
لیکن یہ صرف بڑے سوداگر ہی جانتے ہیں کہ کس وقت اربوں میں منافع کمانا ہے اور کس وقت کروڑوں میں انوسیٹمنٹ کرنی ہے۔  چھوٹا تاجر تو بس دیہاڑی اچھی لگ جائے اسی پے خوشی سے سماء نہیں پاتا۔ لیکن منطر اس وقت اور بھی دلکش ہو جاتا ہے جب چال چلنے والوں کی ہر چال پر میڈیا والے عقاب کی سی نظر ے جماہے اور کوے کی طرح کاے کاے کرتے ہوں۔
اور گلستان میں چڑیوں کی جگہ الو بیٹھے ہوں جو گلستان کو تباہ کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہ گنواتے ہوں۔ ایک طرف تو ابھی ملکی معیشت کے پہیے کو چلانے کے لیے آہی ایم ایف کے سامنے کٹورا لیے کھڑے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں انوسٹمنٹ کرنے والوں نے سود سمیت اپنے اربوں وصول بھی کرنا شروع کر دہے ہیں۔
ملک میں بڑتی مہنگی اور بے روزگاری کو لے کر اپوزیشن کے پاس ٹاہیں ٹاہیں کرنے کے لیے کیا کم مسائل تھے کہ یہ مصیبت بھی گلے پڑ گی ہے۔  خیر کوئی بات نہیں اپوزیشن سے تو کسی طرح لے دے کر ہی لے گئے۔ لیکن اپنی چلتی اے ٹی ایم مشین کا کارڈ کسی اور کو دینا بھی کوئی اتنی عقل مندی کا کام نہیں۔  جب ملک میں کورونا کورونا کا شور ہے۔  اور حکومت نے جو کچھ جمع کیا تھا وہ بھی کورونا لے اڑا اور ڈکار تک نہیں لیا ایسے میں چینی اور آٹا بحران کی رپورٹ کوہی قیامت سے کم نہیں ہے
اس رپورٹ پے حکومت میں مصروف عمل کہی پریشان تو کچھ خوشی سے بگل بجا رے ہے۔  لیکن موقع پرست تو ہر دور اور ہر حکومت میں موجود ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سمجھ دار صیح وقت پر اننگز کھیلتے ہیں اور بے قوف وقت سے پہلے ہی آوٹ ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔
 وزیر اعظم صاحب کو اپنے لاڈلے وزیر اعلیٰ پر تو فخر تھا۔  گونگا نہ بولے اور پیاسا نہ پانی مانگے۔ لیکن اس بار شاہد خان صاحب کو یہ احساس ہو جائے کہ منے کو بولنا بھی ہو گا اور ضرورت کے وقت کڑوا گھونٹ پینا بھی ہو گا۔ خان صاحب کو ن لیگ کے دور کی ڈان  لیکس رپورٹ تو باخوبی یاد ہی ہو گی۔ بادشاہ سلامت نے اپنی شہزادی کو بچانے کے لیے دو وزیرہ کی قربانی بھی دی تھی۔  لیکن نہ شہزادی رہی اور تخت او تاج بھی چھین گیا تھا۔ آج تک سزا کاٹ رے ہے۔
لیکن خان صاحب کو یہاں چلیج کچھ اس کے برعکس ہے۔  یہاں سزا دینے پے مشکلات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور نہ دینے پے میڈیا اور اپوزیشن کم ازکم یہ موقع تو ضاہع نہیں کر ے گے اب خان صاحب کو یہ سمجھ تو آہا جانی چاہیے۔ کہ ن لیگ والے کیوں اپنے دور میں پل اور سڑکیں زیادہ بناتے ہیں۔  ورنہ انویسٹمنٹ کرنے والے سڑکوں اور پلوں سے نہیں بلکہ آٹا اور چینی سے بھی اپنے پیسے وصول کر لیتے ہیں۔
بہرحال سیاست بھی چلتی گاڑی کا نام ہے۔ جب تک چلتی رہتی ہے لوگ سوار ہوتے رہتے ہے۔  اور اپنا اور اپنے ساتھ والے کا کرایہ بھی منہ رکھنے کے لے دیتے رہتے ہیں۔  اور اقتدار میخانے کی وہ حسینہ اگر حسین نہ رہے تو میخانہ اگر سونےکا بنا ہو اور جام چاندی کے برتنوں میں پیش کیا جاے۔ ساقی پھر بھی میخانہ بدل دیتا ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقتدار کی تازہ ہوا بھی اسی سمت چلتی رہتی ہیں۔ جہاں ان کی قدر کی جاتی ہے۔ اور اقتدار کے نشمن بادصبا کو زندگی کی روح سمجھ کر اس سے سراب ہوتے ہیں۔ خان صاحب کو یہ انداز تو باخوبی ہو گیا ہے کہ گورنمنٹ چلانا کرکٹ سے کافی۔ مختلف ہے۔ لیکن سمجھ دار ساست دان ہمیشہ اپنی کرسی کے چاروں پاۂے مضبوط رکھتے ہیں۔

Categories: April 2020