Category: April 2020

11-04-2020

MOON CREATIONS
جیے شوگر مافیا
تحریر کردہ حنیف احمد منگول
کلائی مغلاں لواسی گڑھی دوپٹہ
پہلی بات‘ گنا فصل یا پودا نہیں‘ یہ گھاس ہے اور اس کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے تھا‘ یہ ہندوستان کے جنوب مشرقی علاقوں میں پیدا ہوتا تھا‘ ہندوستان کے لوگوں نے چار ہزار سال قبل گنے کا رس نکال کر گُڑ بنانا شروع کر دیا‘ شوگر سنسکرت کا لفظ ہے‘ہندوستان کے لوگ گنے کے رس (راب) کو مختلف کھانوں اور ادویات میں استعمال کرتے تھے‘ وہ گُڑ کی شکل میں اسے محفوظ بھی کر لیتے تھے‘ گنا ہندوستان سے تائیوان‘ تھائی لینڈ اور چین پہنچ گیا۔
چین اور ایران کے ساتھ تجارت شروع ہوئی تو یہ ایران آ گیا‘ ایران سے اسے عربوں نے اچک لیا اور عربوں سے یہ اندلس (سپین) چلا گیا اور گوروں نے اسے یورپ میں اگانے کی کوشش شروع کر دی مگر یہ یورپ میں جڑ نہ پکڑ سکا‘ وجہ شاید یورپ کا موسم تھا‘ گنے کو گرم مرطوب موسم چاہیے‘ یہ بے تحاشا پانی بھی لیتا ہے اور یورپ میں کوئی گرم مرطوب علاقہ نہیں تھا لہٰذا یہ وہاں نہ اگ سکا‘ کولمبس نے 1492ء میں امریکا دریافت کر لیا‘ ہسپانیولا  میں پہلی یورپی بستی بنی‘ یہ بڑا جزیرہ تھا‘ موسم گرم مرطوب تھا‘ میٹھا پانی بے تحاشا تھا‘ ہسپانوی جہازران 1501ء میں ہندوستان سے گنا لے آئے‘ زمین میں بویا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں ایکڑ تک پھیل گیا‘ تجربہ کام یاب ہو گیا اور ہسپانیولا سپین کے لیے شوگر فیکٹری بنتا چلا گیا‘ سپینش اور پرتگالی اس کے بعد ویسٹ انڈیز میں آگے بڑھتے گئے اور گنا بھی ان کے ساتھ پھلتا پھولتا گیا‘ یہ لوگ کیوبا اور برازیل گئے اور گنا بھی وہاں چلا گیا‘ سولہویں صدی میں چینی کی ساری انڈسٹری پرتگال اور سپینش کے ہاتھ میں تھی‘ یہ پوری دنیا میں چینی کا ریٹ طے کرتے تھے‘ یورپ میں چقندر سے چینی بنائی جاتی تھی‘ چقندری چینی برطانوی تاجروں کے کنٹرول میں تھی‘ گنا چقندر کے مقابلے میں زیادہ چینی دیتا تھا لہٰذا یہ بھی گنے کے شعبے میں آگئے اور ہندوستان میں شوگر ملز لگانا شروع کر دیں۔
آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور پیسفک آئی لینڈرز کی دریافت کے بعد برطانوی تاجر چینی کے دوسرے بڑے پلیئرز بن گئے‘ گوروں نے فجی اور پاپوا نیو گنی میں چینی کی ملیں لگائیں اور چینی کو پوری دنیا کے لائف سٹائل کا حصہ بنا دیایہاں تک کہ آج چینی ہر شخص اور ہر گھر کا حصہ ہے‘ ہم میں سے ہر شخص اوسطاً سالانہ 150پاؤنڈز (68 کلوگرام) چینی استعمال کرتا ہے اور یہ ہماری جسمانی ضرورت سے دس گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن ہم اب چینی کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتے۔
دوسری بات‘ برازیل کا موسم اور ماحول گنے کے لیے سب سے زیادہ آئیڈیل ہے لہٰذا برازیل دنیا میں سب سے زیادہ شوگر بناتا ہے‘ یہ تین سو سال سے شوگر انڈسٹری کا لیڈر ہے لیکن پچھلے سال بھارت نے پہلی بار اسے مات دی‘ انڈیا شوگر پروڈکشن میں اس وقت دنیا میں نمبرون ہو چکا ہے‘ برازیل دوسرے‘ یورپی یونین تیسرے نمبر پر آتی ہے لیکن یہ گنے کے بجائے چقندر سے چینی بناتی ہے‘ تھائی لینڈ چوتھے نمبر پر ہے تاہم یہ دنیا میں چینی کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے اور چین پانچویں نمبر پر ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا میں گنے پر سب سے زیادہ ریسرچ امریکا میں ہوتی ہے‘ امریکا کی ریاست ہوائی شوگر کین سٹیٹ کہلاتی ہے لیکن امریکا اس کے باوجود چینی درآمد کرتا ہے‘ کیوں؟ امریکا میں گنے کو لیزی مین کراپ (سست کسان کی فصل) کہا جاتا ہے‘ گنا فصل نہیں‘ یہ گھاس ہے‘ آپ یہ لگا دیں‘ کھیت میں پانی دیتے رہیں اور تین سال گنا کاٹتے رہیں‘ گنا کاٹنے کے بعد گھاس کی طرح دوبارہ اگ آئے گا چناں چہ گنا کاشت کرنے والے کسان سست ہو جاتے ہیں۔
یہ کسی دوسرے کام کے قابل نہیں رہتے‘ دو‘ گنا بے تحاشا پانی پیتا ہے‘ یہ جس جگہ لگایا جاتا ہے یہ وہاں کا سارا پانی پی جاتا ہے اور وہ علاقہ جلد یا بدیر بنجر ہو جاتا ہے اور تین‘ چینی بنانا ایک مہنگا کام ہے چناں چہ امریکا اپنی ضرورت کی چینی برازیل اور تھائی لینڈ سے امپورٹ کر لیتا ہے اور کھیتوں میں مکئی‘ پھل اور دالیں اگاتا ہے‘ یہ ہوائی میں بھی گنے کی جگہ انناس کو فوقیت دے رہا ہے۔تیسری بات‘ ہم اب پاکستان میں آتے ہیں‘ پاکستان نوے کی دہائی تک دنیا میں کپاس اگانے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔
پاکستان کی کپاس دوسرے نمبر پر آتی تھی لیکن پھر سیاست دان شوگر انڈسٹری میں آئے اور یہ آہستہ آہستہ کاٹن ایریا کو شوگر ایریا میں تبدیل کرتے چلے گئے یہاں تک کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار بھی کم ہو گئی اور یہ غیر معیاری بھی ہوتی چلی گئی‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی ہم اب دھاگا امپورٹ کرتے ہیں‘ ہماری کاٹن انڈسٹری بڑی تیزی سے چین اور بھارت کی محتاج ہو رہی ہے‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ ملک میں پچھلے بیس برسوں میں کاٹن پر کوئی ریسرچ نہیں ہوئی‘ کیوں؟
کیوں کہ شوگر مافیا نے یہ ہونے نہیں دی‘ آپ پچھلے بیس برسوں کے وزیرصنعت اور زراعت نکال کر دیکھ لیجیے‘ یہ عہدے ہمیشہ جاگیرداروں کو ملتے ہیں اور جاگیر دار کاٹن پر ریسرچ نہیں ہونے دیتے تھے‘ وجہ؟ یہ سمجھتے ہیں کاٹن پر ریسرچ ہو گئی تو کسان گنے کی جگہ کپاس اگائے گا اور اس سے ان کو نقصان ہو گا اور دوسرا ملک 20 برسوں سے شوگر مافیا کے کنٹرول میں ہے‘ آپ پچھلے بیس برسوں میں ملک کے تمام بڑے لوٹے دیکھ لیں‘ آپ کو شوگر مافیا پارٹیاں بدلتا نظر آئے گا۔
یہ لوگ ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اور زراعت اور تجارت کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں‘ سوال یہ ہے یہ لوگ شوگر انڈسٹری میں کیوں ہیں؟ آپ جان کر حیران ہوں گے یہ دنیا کی واحد انڈسٹری ہے جس کا را مٹیریل (گنا) ادھار ملتا ہے‘ یہ لوگ مل لگانے سے لے کر شوگر سٹور کرنے تک بینک سے ایک دھیلا قرض نہیں لیتے‘ یہ کسان کو نچوڑتے رہتے ہیں‘ اب سوال یہ ہے کسان پھر گنا کیوں اگاتا ہے‘ یہ کوئی اور فصل لگا لے؟ وجہ صاف ظاہر ہے‘گنا ”لیزی مین کراپ“ ہے۔
آپ ایک بار بوئیں اور تین سال تک کاٹتے رہیں چناں چہ کسان اپنی سستی کی وجہ سے بلیک میل ہوتا رہتا ہے‘کسان کی مجبوری سے شوگر مافیا بنا‘ یہ سیاسی جماعتوں اور بیورو کریسی میں آیا اور زراعت اور انڈسٹری دونوں کو یرغمال بنا لیا‘ یہ لوگ تمام سیاسی جماعتوں میں ہیں‘ یہ اپنی مرضی کی حکومتیں لے آتے ہیں اور ناپسندیدہ حکومتیں گرا دیتے ہیں‘ عمران خان کی حکومت اس کی تازہ ترین مثال ہے‘ شوگر مافیا نے 2013ء کے بعد عمران خان کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔
یہ حکومت آج بھی شوگر مافیا کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے‘ اگر صرف یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں تو وفاق اور پنجاب دونوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔چوتھی بات‘ یہ لوگ کرتے کیا ہیں؟ یہ کمال کرتے ہیں! یہ پاکستان کے عوام کو لوٹتے ہیں‘ کیسے؟ ہم اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں پاکستان میں گندم اور چینی دونوں پوری دنیا سے مہنگی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ 21 کروڑ لوگوں کی روزانہ کی خوراک ہے‘ یہ ملک ان دونوں اجناس کی سب سے بڑی منڈی ہے چناں چہ یہ لوگ اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پاکستان میں سالانہ 50 لاکھ ٹن چینی کی کھپت ہے‘ ہماری پیداوار جس سال زیادہ ہو جائے مالکان حکومت کو مجبور کر کے اس سال چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت لے لیتے ہیں لیکن یہ اس سے پہلے حکومت سے ایکسپورٹ سبسڈی لیتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہماری چینی مہنگی ہوتی ہے‘ یہ عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پاتی لہٰذا ”ڈیفرنس“ حکومت برداشت کرتی ہے‘ سوال یہ ہے حکومت کیوں برداشت کرتی ہے؟ کیوں کہ یہ لوگ تگڑے ہیں‘ اگلا سوال یہ ہے کیا یہ ایکسپورٹ سے پیسہ کماتے ہیں؟
جی نہیں! انہیں ایکسپورٹ میں نقصان ہوتا ہے‘ یہ سبسڈی سے چینی کی کاسٹ نکالتے ہیں اور ایکسپورٹ کے بعد ملک میں مصنوعی قلت پیدا کر کے چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں اور اس سے اربوں روپے بناتے ہیں‘ 2018ء اور 2019ء میں بھی یہی ہوا تھا‘ ملک میں 52 لاکھ ٹن چینی پیدا ہوئی تھی‘ ہماری ضرورت 50 لاکھ ٹن تھی‘ دو لاکھ ٹن اضافی تھی‘ یہ لوگ حکومت میں بیٹھے تھے لہٰذا دو سیکرٹریوں کے چیخنے کے باوجود وفاقی کابینہ نے 11 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی۔
پنجاب نے مالکان کو تین ارب روپے سبسڈی بھی دے دی‘ چینی باہر چلی گئی اور ملک میں قلت پیدا ہو گئی‘ قیمت بڑھی اور یہ 55 روپے سے 80 روپے کلو گرام ہو گئی یوں ان لوگوں نے 87 ارب روپے کما لیے‘ جہانگیر ترین کے پاس مارکیٹ کا 20 فیصد اور خسرو بختیار کے پاس 15 فیصد شیئر ہے لہٰذا 87 ارب کا 35 فیصد ان دونوں کی جیب میں چلا گیا اور باقی حصہ ان کے دوستوں اور دوسرے سیاست دان کی جیب میں جا گرا۔ہم اب آخری بات کی طرف آتے ہیں۔
کیا عمران خان چینی مافیا پر ہاتھ ڈال سکیں گے؟ میرا خیال ہے نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم نے اگر ہاتھ ڈالا تو یہ حکومت چلی جائے گی‘ حکومت یہ رپورٹ بھی جاری نہیں کرنا چاہتی تھی‘ رپورٹ وزیراعظم آفس میں پڑی تھی‘ وزیراعظم کے ایک مشیر نے یہ کاپی نکال کر محمد مالک اور ارشد شریف کو دے دی‘ رپورٹ میڈیا میں بریک ہو گئی اور یوں حکومت اسے ”اون“ کرنے پر مجبور ہو گئی لہٰذا مجھے محسوس ہوتا ہے یہ ایشو جلد یا بدیر کرونا کی خبروں میں دب جائے گا۔
حکومت مزید مٹی ڈالنے کے لیے سابق حکومتوں کے قرضوں کا ایشو اٹھا رہی ہے لہٰذا کرونا اور قرضہ کمیشن کی رپورٹ مل کر یہ رپورٹ نگل جائے گی‘ شوگر مافیا کا اپنا خیال ہے کرونا کے مریضوں کی تعداد لاکھ تک پہنچنے کی دیر ہے اور آٹا ہو یا چینی ساری رپورٹیں غائب ہو جائیں گی چناں چہ آپ آج سے کرونا اور قرضہ کمیشن رپورٹ پر توجہ دینا شروع کر دیں‘ آپ کو بہت جلد چینی رپورٹ کی خبر‘ خبر نظر نہیں آئے گی۔ جیے شوگر مافیا۔
تحریر کردہ حنیف احمد منگول

Categories: April 2020

10-04-2020

MOON CREATIONS

 

 

 

 

 تحریر مولانا عثمان وحید فاروقی
 ضلعی وتحصیل انتظامیہ دھیرکوٹ ارباب اقتدار سے گزارشات ۔۔
کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر مین لوگ معاشی معاشرتی ذہنی طور پر بہت متاثر ہوئے ہین قبل ازیں پردیسی جب اپنے گھر کو لوٹا کرتے تھے تو پورے خاندان مین بڑی خوشی اور چہل پہل ہوا کرتی تھی لیکن نہ جانے اس وباء نے انسانوں کو کیوں اس قدر دور کردیا کہ سالہا سال کے بعد پردیس سے واپس لوٹ آنے والا والد اپنے بچوں سے بےجھجک گلے نہین مل سکتا؛ ماں اپنے لعل کو زیادہ دیر قریب بٹھا کر اس کے دکھڑ ے سننے کو تیار نہین ہے بہن بھائیوں کے درمیان ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اب تک ویسے ہی فاصلے برقرار ہین  کہین انتظامیہ اور حکومتی قوانین آڑے ہین بہرحال آزاد  حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قابل تحسین اور بروقت اقدامات کی وجہ سے یہاں کے شہری باقی دنیا کی بنسبت بہت کم متاثر ہوئے ہین  جس پر ہر شہری اپنی حکومت کا مشکور اور خدا تعالی کے سامنے سربسجود ہے ۔
 لیکن دھیرکوٹ اور باغ کی انتظامیہ کے چند اقدامات پر بعض خواص اور عوام الناس کو شدید تحفظات ہین ۔
دھیرکوٹ اے سی صاحب ابھی چند ہی روز قبل تشریف لائے ہین شاید اس وجہ سے وہ اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کیلیے ایسے سطحی اقدامات کر رہے ہین جن سے لوگ بجائے کروناوائرس احتیاطی تدابیر کو اپنے لیے حفظ جان سمجھنے کے اسے وبال جان سمجھنے لگے ہین معمولی معمولی باتوں پر لوگوں سے بداخلاقی ؛ ماسک اور گلاوز کے عدم استعمال پر بے جا بے عزتی کرنا ؛ دو دو افراد کے بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ایک ساتھ مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے چلنے پر بھی سخت ترین پابندی عائد کررکھی ہے بلکہ موصوف نے آتے ہی چند روز مین  دفعہ 144 نافذ کرکے یہ باور کروایا  کہ ہاں قانون کی ڈوری میرے ہاتھ مین ہے   مین جو چاہوں کرسکتا ہوں ۔
جمعة المبارک کے روز راولپنڈی اسلام آباد اور پاکستان کے دوسرے کئی شہروں مین نماز جمعہ کی ادائیگی پر  اس قدر سختی نہین تھی جس قدر زبردست کرفیو کاسماں تحصیل دھیرکوٹ مین تھا موصوف اے سی صاحب کا کہنا تھا کہ جمعہ کے اجتماع مین تین افراد امام مسجد موذن خادم کے علاوہ کوئی شریک نہین ہوسکتا دوسری جانب ایسی فوٹیج موجود ہین جس مین اے سی صاحب خود جب بازار مین داخل ہوتے ہین تو پندرہ سے بیس افراد کا جم گھٹا باندھ کر اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کے لیے بڑی شان وشوکت  کے ساتھ داخل ہوتے ہین ۔
ارباب اختیار سے میری گزارش   ہے کہ اے سی سے جواب طلبی کی جائے؟
  مسجد مین تین سے زائد  افراد کے نماز ادا کرنے سے کرونا پھیل جاتا ہے تو کیا آپ کے ساتھ درجنون لوگوں کے چلنے پھرنے  سے کرونا کچھ نہین کرتا ؟؟
یہاں تک ہی نہین بلکہ اے سی صاحب کے ساتھ چلنے والی ٹیم بغیر گلاوز اور ماسک کے پورے بازار کادورہ کرتے ہوئے گزر جاتی ہے حرام ہے کرونا سے کوئی خطرہ ہو یا اس سے کسی کے متاثر ہونے کااندیشہ ہو کرونا وائرس صرف مساجد مین لوگوں کے اجتماع سے پھیلتا ہے اور ماسک گلوز کی ضرورت معمولی دیہاڑی دار مزدور غریب بابا جی کو ہے اے سی صاحب کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگی ہے جس کی بدولت نہ ان کی بیماری کے جراثیم منتقل ہوتے ہین نہ انہین کسی کے جراثیم سے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے ۔
جناب وزیر اعظم صاحب “
اگر آپ کی ریاست کی سب سے حساس اور آزاد کشمیر کی ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تحصیل انتظامیہ کی یہ کیفیت ہے تو پھر باقی تحاصیل اور اضلاع کا کیا ہوگا ؟
یا پھر آپ کے وضع کردہ قوانین صرف عوام الناس کیلیے ہین قانون نافذ کرنےوالے ادارے اس سے مستثنی ہین ؟
راقم الحروف مسجد کا امام وخطیب ہے مین نے احتیاطی تدابیر پر سب سے پہلے خود عمل شروع کیا اور اپنے درجنوں نمازی حضرات کو قران وسنت کی روشنی مین ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے جواز کی دلیلین مہیا کین  اس لیے کہ اگر  علماء کرام ؛ اسکول کالجز کے اساتذہ ؛ ڈاکٹرز ؛ انتظامی اداروں کے ملازمین  اس حوالے سے رول ماڈل ہین اگر ہم ہی ریاست کی رٹ کو سربازار  چیلنج کرین گے پھر کون اس پہ عملدرآمد کرے گا ؟
دوسری جانب علماء کرام ؛مساجد کے خطباء کے حوالے سے  اے سی دھیرکوٹ اور ڈی سی باغ کا گٹھ جوڑ اس قدر پختہ اور ناقابل تسخیر ہے کہ اس کی مثال مقبوضہ کشمیر ؛ شام ؛ فلسطین مین بھی نہین ملتی  ضلع باغ کی حدود مین آج بھی کئی مقامات پر کھیل کے میدان سجے رہتے ین دن بھر نوجوان کھیل کود مین مشغول ہوتے ہین کئی ایک جگہ سو سے اوپر نوجوان بیک وقت جمع رہتا ہے  لیکن کہین انتظامیہ ان کے خلاف کاروائی کرتی نہین دکھائی دے رہی اور  مساجد مین جمعہ کے روز بزور ریاستی طاقت مساجد کوعین خطبہ جمعہ تک  بند کرنے کی ہدایات جاری کی جاتی ہین ؛ پولیس ملازمین سے دھمکیاں دلوائی جاتی ہین   تین سے پانچ افراد کے مسجد مین داخل ہونے پر امام وخطیب مسجد کے خلاف مقدمات کیے جاتے ہین نماز جنازہ مین لوگوں کی زیادہ مین شرکت پر علماء کرام کے خلاف کیس  دائر کیے جاچکے  ہین فوری ایکشن کروا کر علماء کرام۔کے گھروں مین چھاپے مروا کر  معاشرے کے مھذب طبقے کو ذلیل اور رسوا کیا جارہا ہے ۔
ارباب اقتدار سے میری گزارش ہے کہ ریاست مین ایک ہی قانون ہے جو غریب وامیر ؛حاکم۔ ومحکوم ؛رعایاوحکمران کے درمیان بلاامتیاز حرکت مین آتا ہے لیکن ضلع باغ کی انتظامیہ نے اس وقت جو رویہ اپنا رکھاہے وہ بلکل اس کے منافی ہے  اور اس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ یہاں کی انتظامیہ مزہبی طبقات سے شدید عناد اور علماء سے پرخار ہے جسکی وجہ سے یہ قانون صرف علماء کرام کے خلاف ہی حرکت مین آرہا ہے مین پوچھنا چاہوں گا انتظامی اداروں سے کیا ممبر پہ بیٹھا خطیب دروازے سے اندر آنے والے شخص کو خطبہ روک کر یہ کہتے ہوئے واپس کرے کہ کروناوائرس کی وجہ سے آپ اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہونے کیلیے اپنے مالک کے گھر نہ آئین ؟
یہ خطیب  مسجد کے  کا کام ہے یا سرکاری مراعات اور تنخوائین لینے والون کا کام ہے ؟
کیسی عجیب منطق اور فلسفہ ہے کہ انتظامی ادروں کی ذمہ داری ہے وہ مسجد کے باہر اپنے فرائض کی انجام دیہی کیلیے کھڑے ہوں آنے والے نمازیوں کو احتیاطی تدابیر اور حکومتی احکامات سے آگاہ کرین پھر اگر  کوئی عالم دین؛ خطیب ؛ موذن ؛ امام  رکاوٹ بنتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی عمل مین لائی جائے دوسری جانب دیگر عوامی مقامات اجتماع گاہون کھیل کے میدانون پہ بھی پابندی کو صرف نوٹیفکیشن تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکے اس پر بھی عملدرآمد کروایا جائے ورنہ اس کے نتائج بہت بھیانک ہونگے ۔
اس سے یہ تاثر یہ مزید تقویت پکڑے گا یہ لاک ڈاون اور کرفیو بطور خاص مزہبی طبقے کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلیے قائم کیا گیا ہے ۔
جنازہ گاہ کیلیے بھی گھروالوں سے مشورہ کرکے قریبی عزیز واقارب کے علاوہ کسی کو نہ شریک ہونے دیا جائے پھر بھی اگر لوگوں۔کا جم غفیر کہین جمع ہو جاتا ہے تو یہ علماء کی نہین پولیس کی نااہلی ہے  ۔
ایک طرف ضلع باغ کی انتظامیہ اس وقت مساجد کے حوالے سے ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ناکام دکھائی دے رہی ہے دوسری طرف ڈی سی باغ کی زیرصدارت پیر کے روز یہ فیصلہ کیا جاتا ہے امدادی ٹیمین اجازت نامے کے بغیر اپنے تئین کسی غریب؛ نادار ؛مستحق فرد کی مدد نہین کرسکتین اس فیصلے سے بھی فلاحی تنظیموں اور ادروں مین شدید اضطراب ہے یہ معاملہ بھی شرعا واخلاقا بلکل نامناسب ہے جس پر انتظامیہ کو نظر ثانی کی ضرورت ہے ضلع باغ کی حدود بہت دور تک پھیلی ہین۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر آدمی ضلعی یاتحصیل سطح پہ جاکر اجازت نامہ حاصل کرے اور پھر وہ مستحقین مین راشن پانی تقسیم کرے ڈی سی صاحب اس حوالے سے علماء کرام اور فلاحی تنظیمون کے نمائندگان  اعلی سطحی اجلاس بلائین جس مین اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاسکین اور تمام تر تحفظات کو دور کیا جائے ورنہ انتظامی ادروں علماء کرام فلاحی تنظیموں مین عدم اعتماد کی فضا مزید بڑھ جائے گی ۔

Categories: April 2020