Category: April 2020

08-04-2020

MOON CREATIONS

تحریر : فہدحمید
برصغیر میں جب مسلمانوں اور ہندو کے درمیان آزاد کی تحریک بھرپور طاقت سے چل رہی تھی تب بھی کشمیر الگ ریاست کے نام سے جانا جاتا تھا۔آج وہی کشمیر اپنی خود مختاری کی جنگ صدیوں سے لڑ رہا ہے۔
آج کشمیر مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔کشمیر کا کچھ حصّہ پاکستان اور کچھ بھارت کے پاس ہے۔پاکستانی کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔جس میں مظفرآباد اور اور اس کے اردگرد کا علاقہ ہے جو آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس حصّے کو پاکستان کے ایک صوبے کی طرح چلایا جاتا ہے۔البتہ آزاد کشمیر کا الگ وزیراعظم,صدر اور سپریم کورٹ ہے۔دوسرا حصّہ گلگت اور تیسرا بلتستان ہے۔ان کا تمام نظام حکومت پاکستان کے اختیار میں ہے۔
اسی طرح بھارتی کشمیر کو بھی تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلا حصّہ جموں کا ہے جس میں ہندو اکثریت میں ہیں۔دوسرا حصّہ وادی ہے جس میں سرینگر کا علاقہ ہے۔اس میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔یہی علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا سبب ہے۔اور تیسرا علاقہ لداخ کا ہے۔یہ پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں ہندو اکثریت میں ہیں۔
تقسیم سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام خودمختار ریاستوں کو اظہار راۓ کے ذریعے ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جاۓ۔وہ خود مختار رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان یا بھارت میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔جس پر آج تک عمل نہ ہو سکا اور کشمیری آج تک اس جدوجہد میں ہیں کہ اپنا حق حاصل کر سکیں۔
کشمیر کو اگر الگ ملک کے طور پر دیکھا جاۓ تو کشمیر ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہو سکتا ہے۔کشمیر قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔نیلم جہلم جیسے بڑے پروجیکٹ کشمیر میں موجود ہیں۔جس سے آج تک کشمیری محروم ہیں۔
کشمیر سیاحتی طور پر بھی دنیا کے خوبصورت ممالک میں سے ایک ہے۔کشمیر قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہے۔یہی وجہ ہے کے کشمیر کو جنت نظیر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ھر سال بیرونی ممالک سے کئ سیاح کشمیر کی سیر اور قدرتی خوبصورتی دیکھنے آتے ہیں۔البتہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے کشمیر  میں سیاحت کو اس طرح فروغ نہ دیا جا سکا۔
کشمیریوں نے اپنے حق کے لئے آج تک کئی قربانیاں دیں اور انشاء اللہ کشمیریوں کا خون ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔

Categories: April 2020

07-04-2020

MOON CREATIONS

کرونا وائرس سے اپنے آپ کو اور گھر کو محفوظ کیسے بنائیں

 تلاش منگول کی اذ قلم حنیف احمد منگول کلائی مغلاں
( جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی تحقیق)
کرونا وائرس پر سب سے زیادہ تحقیق کرنے والے واشنگٹن کے معروف تحقیقی و تدریسی ادارے جانز ہاپکینز یونیورسٹی نے گھروں کو کرونا وائرس سے پاک رکھنے اور خود کو محفوظ بنانے کے لئے ایک گائیڈ لائن جاری کی ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے پرفیسر کے جاری کردہ الرٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کوئی جان دار چیز نہیں بلکہ ایک لحمیاتی سالمہ یا پروٹین مالیکول یعنی ڈی این اے ہے، جس پر چربی یا لیپڈ کی حفاظتی تہ چڑھی ہوئی ہے جو انسانی انکھوں، منھ یا ناک کی رطوبت یا میوکس کے خلیوں میں مل جانے سے اپنی تولیدی یا افزائش نسل کی خصوصیت حاصل کرکے جارحانہ تیزی سے بڑھنے والا خلیہ بن جاتا ہے۔
(1) کیا کورونا وائرس کو ختم کیا جاسکتا؟
کوئی زندہ چیز کی بجائے ایک لحمیاتی سالمہ ہونے کی وجہ سے اسے مارا نہیں جا سکتا، بلکہ ریزہ ریزہ ہو کر یہ ازخود ختم ہوتا ہے۔ تاہم، ریزہ ریزہ ہونے کے عرصے کا دار و مدار اس کے اطراف کے درجہ حرارت، نمی اور جہاں یہ موجود ہو اس کی نوعیت پر ہوتا ہے۔
(2) اسے ریزہ ریزہ کیسے کرتے ہیں؟
یہ وائرس ہوتا تو بہت نحیف(کمزور) ہے۔ تاہم، چربی کی بنی ہوئی اس کی باریک حفاظتی تہ پھاڑ دینے ہی سے اسے ختم  کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے صابن یا ڈٹرجنٹ کا جھاگ سب سے زیادہ موزوں ہے جسے بیس یا اس سے زائد سیکنڈ تک اس پر رگڑتے رہنے سے چربی کی تہہ کٹ جاتی ہے اور لحمیاتی سالمہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔
(3) کیا گرم پانی کے استعمال سے یہ جلدی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے؟
گرمائش چربی کو جلدی پگھلاتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ پچیس ڈگری سے زائد درجہ حرارت (نیم گرم سے تھوڑا زیادہ) تک گرم کئے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ، کپڑے اور دیگر اشیا صابن یا ڈٹرجنٹ کے جھاگ سے دھوئیں۔ گرم پانی جھاگ بھی زیادہ بناتا ہے اس لیے اس کا استعمال زیادہ سود مند ہے۔
(4) کیا الکحل ملے پانی سے بھی اس کی حفاظتی جھلی توڑ سکتے ہیں؟
الکحل یا ایسا آمیزہ(مکسچر) جس میں 65 فیصد الکحل ہو وہ بھی اس کی حفاظتی تہ کو پگھلادیتا ہے بس شرط یہ ہے کہ اس پر اچھی طرح سے لگایا جائے۔
(5) کیا بلیچ ملے پانی سے بھی اسے ختم کر سکتے ہیں؟
ایک حصہ بلیچ اور پانچ حصے پانی ملا کر ایسی تمام جگہوں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل، ریموٹ، سیل فون، ماؤس، لیپ ٹاپ کی اوپری سطح، میز کی اوپری سطح یا ایسی تمام غیر جاندار جگہیں جہاں وائرس کی موجودگی کا امکان ہو اورجنھیں لوگ معمول کی زندگی میں چھوتے ہیں ان پر اچھی طرح اسپرے کرنے سے بھی اس کی حفاظتی جھلی ٹوٹ جاتی ہے۔
(6) کیا بہت زیادہ آکسیجن ملا پانی بھی اسے مارنے میں کارگر ہوتا ہے؟
بہت زیادہ آکسیجن ملے پانی سے بھی وائرس کی حفاظتی جھلی کو توڑا تو جا سکتا ہے مگر صابن، الکحل یا کلورین جیسی طاقت کے ساتھ نہیں، اس کے علاوہ ایسا پانی آپ کی جلد کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کا خالص ہونا بھی ضروری ہے۔
(7) جراثیم کش اور اینٹی بائیوٹک ادویات سے کیا اس کے ٹکڑے کر سکتے ہیں؟
جراثیم کش دوا اسے ختم کرنے میں کارگر نہیں ہوتی، کیونکہ وائرس، جراثیم کے برعکس جاندار نہیں ہوتا، جبکہ جراثیم مارنے کے لیے اینٹی بائیوٹک کام کرتی ہے۔
(8) یہ کسی بھی سطح پر کب تک باقی رہتا ہے؟
استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ کپڑوں کو لہرائیں یا جھٹکیں مت کیونکہ یہ کسی بھی مسام دار سطح (آپ کی جلد) کے علاوہ کپڑوں پر بے حس و حرکت تین گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے اس کے بعد کپڑوں اور آپ کی جلد سے ریزہ ریزہ ہو کر ختم ہوتا ہے۔ جبکہ تانبے پر چار گھنٹے، کارڈ بورڈ پر چوبیس گھنٹے، دھات پر بیالیس گھنٹے اور پلاسٹک پر بہتر گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے۔
(9) کیا یہ ہوا میں بھی موجود رہ سکتا ہے؟
جن چیزوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان چیزوں کو ہلانے جلانے پر یا پروں کی جھاڑن سے ان کی صفائی کرنے پر یہ فضا میں بھی تین گھنٹے تک رہ سکتا ہے اور اس دوران آپ کی ناک کے قریب آنے پر آپ میں داخل بھی ہوسکتا ہے۔
(10) کیسا ماحول اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے؟
یہ وائرس قدرتی یا ائیرکنڈیشنر کی ٹھنڈک میں بہت مستحکم ہوجاتا ہے اسی طرح اندھیرے اور نمی (موائسچر) میں بھی دیر تک رہتا ہے، اس لیے خشک، گرم اور روشن ماحول اس کے خاتمے میں مدد دیتا ہے۔
(11) کیا سخت دھوپ میں بھی یہ موجود رہتا ہے؟
بالائے بنفشی شعاعیں (الٹرا وائلٹ ریز۔ یو وی ریز یعنی سخت دھوپ) اس پر براہ راست کچھ دیر پڑنے سے بھی یہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے چہرے پر لگانے والے ماسک کو بھی اچھی طرح ڈٹرجنٹ سے دھو کر اسے دھوپ میں سکھانے کے بعد دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، بالائے بنفشی شعاعوں کا بہت دیر تک آپ کی جلد پر پڑنے سے اس پر جھرئیاں اور آپکو جلدی سرطان ہو سکتا ہے۔
(12) کیا انسانی جلد سے بھی یہ ہمارے بدن میں داخل ہو سکتا ہے؟
صحت مند جلد سے یہ وائرس انسانی جسم میں داخل نہیں ہو سکتا۔
(13) کیا سرکہ ملا پانی بھی اس کے ٹکڑے کر سکتا ہے؟
سرکہ اسے ختم کرنے میں کارآمد نہیں کیونکہ وہ اس کی چربی کی بنی حفاظتی جھلی کو توڑ نہیں سکتا۔
(14) کیا گھر اچھی طرح بند رکھنے سے اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
جو جگہ ہوا دار نہ ہو اس میں یہ زیادہ پنپتا ہے جبکہ کھلی جگہ پر اس کے زیادہ دیر تک رہنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
(15) کیا ہر کام کرنے سے پہلے بھی اچھی طرح ہاتھ دھونے چاہئیں؟
یہ بالکل درست کہا گیا ہے کہ منھ، ناک، آنکھ، کھانے، تالوں، چابیوں، نوٹوں، سکوں، دروازوں کے ہینڈلوں، بجلی کے بٹنوں، ریموٹ کنٹرول، موبائل فون، گھڑی، کمپیوٹر، ڈیسک، ٹی وی وغیرہ کو چھونے سے پہلے اور بعد میں جبکہ واش روم سے آنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ دھویں.
(16) ہاتھ خشک کرنے کے آلے (ہینڈ ڈرائر) میں بھی کیا رہ سکتا ہے؟
ہاتھ خشک کرنے کے آلے کو بھی اچھی طرح دھو کر نمی سے پاک رکھیں، کیونکہ یہ سالمہ(مالیکیول) اس کی درزوں میں بھی بیٹھ سکتا ہے.
(18) کیا یہ ہمارے ناخنوں میں بھی رہ پاتا ہے؟
جی بالکل، اپنے ناخن باقاعدگی سے کاٹیں تاکہ ناخنوں کے میل میں نہ بیٹھ پائے۔
( وائس آف امریکا سے استفادہ :
ہومیوپیھتک ڈاکٹر حنیف احمد منگول راولپنڈی)

Categories: April 2020